دس منٹ مزید ہوٹل میں رکتا تو مار دیا جاتا، سزائے موت کے مطالبے کو نظراندازنہیں کیا جاسکتا:صدر طیب اردگان
استنبول(نیوز ڈیسک)”بغاوت کے دوران کہاں تھا اور کیسے بچا“؟ترک صدر نے سب بتا دیا۔رجب طیب اردگان کا کہنا ہے کہ ناکام فوجی بغاوت کے وقت انہوں نے بمشکل جان بچائی۔
اخبار دی نیشنل کے مطابق تر ک صدر کا کہنا تھا کہ بغاوت کے وقت وہ چھٹی منانے مرمارس کے علاقہ میں موجود تھے جہاں ان کے ہوٹل کا محاصرہ کر لیا گیا۔انہوں نے کہا کہ باغیوں کے ہوٹل میں گھسنے سے چند منٹ پہلے انہوں نے وہاں سے نکل کر استنبول جانے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر میں دس سے پندرہ منٹ مزید وہاں رکتا تو مخالفین کے ہاتھوں مارا جاتا۔ہزاروں حامیوں سے خطاب کے دوران سزائے موت سے متعلق سوال پر ردعمل دیتے ہوئے اردگان نے کہا کہ ”عوامی مطالبے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔“
اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے صدر اردوغان کا کہنا ہے کہ ترکی ایک ’جمہوری ریاست ہے جہاں قانون کی بالادستی ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ تھا اگر ترک عوام یہ مطالبہ کرتے ہیں اور پارلیمان اس قانون سازی کی منظوری دے دیتی ہے تو وہ سزائے موت بحال کرنے کے لیے تیار ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’آپ عوام کے مطالبے کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔‘ترک صدر کا کہنا تھا کہ ’آج کیا امریکہ میں سزائے موت نہیں ہے؟ روس میں؟ چین میں؟ دنیا بھر کے ممالک میں؟ صرف یورپی یونین کے ممالک میں سزائے موت نہیں ہے۔‘
دوسری جانب یورپی یونین کے حکام نے ترکی کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے ملک میں سزائے موت کو بحال کی تو اس کے یورپی یونین میں شمولیت کا راستہ بند ہوسکتا ہے۔ترکی کے مغربی اتحادیوں نے اس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے اور صدر ارگان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دیکھ بھال کر کوئی قدم اٹھائیں۔
خیال رہے کہ ترکی نے سنہ 2004 میں یورپی یونین کا رکن بننے کی کوششوں کے سلسلے میں ملک میں سزائے موت کا قانون ختم کر دیا تھا۔
رجب طیب اردگان بغاوت کی کوشش کے بعد پولیس اہلکاروں اور سرکاری عملے پر ہونے والے کریک ڈاو¿ن کی نگرانی کر رہے ہیں۔ترکی میں ہزاروں کی تعداد میں پولیس اور فوجی افسران اور ججوں کو برطرف یا حراست میں لیا جا چکا ہے۔
No comments:
Post a Comment